چوہوں کی دعوت ولیمہ دھوم سے (سعد عبدالرزاق‘ کراچی)
آدھی رات کا وقت تھا خالد صاحب کا تمام گھر سویا ہوا تھا۔ مگر ان کے اسٹور روم میں بڑی رونق تھی۔ چھوٹے بڑے کئی چوہے بھاگے پھر رہے تھے۔ کوئی ادھر جارہا ہے تو کوئی ادھر۔ چوہیاں زرق برق کپڑے پہنے ہوئے تھیں جبکہ چوہے کھانے کے انتظامات میں لگے ہوئے تھے۔ کیونکہ آج چمنی کا ولیمہ تھا۔
چمنی بڑا پیارا اور خوبصورت چوہا تھا مگر چوں کہ اس کی پیدائش پرانے غیر استعمال شدہ باورچی خانے کی چمنی میں ہوئی تھی اس لیے اس کے والدین اسے چمنی ہی کہتے تھے کل اس کی شادی خالد صاحب کے پڑوسیوں کے چوہوں کے گھر ہو گئی تھی اور آج اس کے گھر دعوت ولیمہ تھی۔
وہ اپنی آٹھ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اس لیے تمام خاندان والے پورے زور و شور سے اس کی شادی کی خوشیوں میں شریک تھے۔ سب بہنوں نے مل کر بل کو کھود کھود کر وسیع کر لیا تھا تاکہ مہمانوں کو بٹھانے میں آسانی رہے۔ خالد صاحب کا گھر ویسے تو پکا تھا مگر اسٹور روم ابھی تک کچا تھا جہاں چوہے خوب موجیں منا رہے تھے۔
بل کی صفائی ہو گئی تو چمنی کے دوستوں نے کھانا لگانا شروع کر دیا۔ چمنی کی بہنیں دوڑ دوڑ کر سجاوٹ کی اشیاءسے بل کو سجا رہی تھیں۔ ایک بہن بھاگ کر خالد صاحب کی چھوٹی بیٹی گڑیا کے کمرے میں گئی اور اس کے گڈے کی واسکٹ اپنے بھائی کیلئے اٹھا لائی۔
چمنی کے دادا جو کافی بوڑھے ہونے کی وجہ سے بیمار تھے اور بل کے ایک کونے میں لیٹے آرام کر رہے تھے‘ چھوٹی چوہیا کی حرکت دیکھ کر بولے۔
”ارے بیٹی‘ یہ کس کے کپڑے اٹھا لائی ہو؟ کیوں دوسروں کی چیزیں چوری کرتی ہو۔ چوری کرنا بری بات ہے۔ اس واسکٹ کے بغیر بھی کام چل سکتا تھا۔“
مگر کسی نے ان کی ایک نہ سنی اور سب اپنے اپنے کاموں میں مگن رہے۔ چمنی کی چھوٹی بہنیں تو سب سے پہلے تیار ہو کر بس دلہن کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی تھیں اور بھابھی کے شوق میں کسی سے مل ہی نہیں رہی تھیں۔ ان کی اور بھی بہت سی سہیلیاں آگئی تھیں۔ چمنی کی ماں نے اپنی ایک بیٹی کو بلا کر کہا۔
”بدنو تم ایسا کرو کہ گڑیا کے کمرے میں جاﺅ اور اس کے گڈے کا سہرا اٹھا لاﺅ۔ وہ ہم بل کے دروازے پر لٹکائیں گے تو مہمان دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔“
بدنو یہ سنتے ہی سہرا لینے دوڑ پڑی۔ دادا نے سنا تو کہنے لگے ”اری بیٹا‘ کیوں لالچ کرتی ہو۔ ہمارا گھر تو پہلے ہی اتنا اچھا لگ رہا ہے۔“
”اباجی ایک ہی تو بیٹا ہے ہمارا، اس کے بھی ارمان پورے نہ کریں تو اور کس کے کریں۔“ چمنی کی ماں نے جواب دیا اور کام میں لگ گئی۔ اتنے میں چمنی کا باپ آکر چمنی کی ماں سے کہنے لگا۔
”بیگم‘ بیگم جلدی آﺅ میرے ساتھ میں نے باورچی خانے میں کافی سارا گڑ دیکھا ہے۔ مگر وہ مجھ اکیلے سے اٹھایا نہیں جائے گا۔ تم بھی میرے ساتھ چلو۔“
اور دونوں میاں بیوی گڑ اٹھا کے لے آئے۔ دادا نے کھانس کر کھنکار ایک طرف پھینکی اور ناک پر عینک جما کر بولے۔
”ارے بچو‘ تم سے صبر کیوں نہیں ہوتا۔ اتنا لالچ نہ کرو۔ کسی مصیبت میں پھنس جاﺅ گے۔ تھوڑے پر صبر کرو“۔
”اباجی ایک چمنی ہی تو ہمارا بیٹا ہے پھر بھلا کب ایسا موقع آئے گا؟ اور ویسے بھی لوگوں کو پتا چلنا چاہیے کہ ہم کھاتے پیتے گھر کے چوہے ہیں کوئی غریب گھر کے نہیں“ چمنی کے ابا جان نے کہا۔
والدین کی طرف سے بے جا آزادی ملنے پر چمنی کی بہنیں شیر ہو گئیں اور وہ بیگم خالد کے کمرے سے ان کی لپ اسٹک گھسیٹ کر لے آئیں۔ جسے لگا کر سب چوہیاں خوب بن ٹھن گئیں۔ چمنی کا باپ اپنی بیوی سے بولا۔
”بیگم میں ذرا انتظامات کا جائزہ لے لوں۔ مہمانوں کی آمد کا وقت ہو گیا ہے تم ایسا کرو کہ خالد صاحب کے منے کا باجا اٹھا لاﺅ۔ مہمانوں کی آمد پر جب ہم باجا بجا کر ان کا استقبال کریں گے تو سب حیران رہ جائیں گے۔ آخر انہیں پتا چلنا چاہیے کہ میرے بیٹے کی شادی ہے‘ کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کی نہیں۔“
دادا نے سنا تو کہنے لگے بیٹا باجا بجانا بری بات ہے تم اس قسم کے برے کام مت کرو ورنہ اللہ ناراض ہو گا اور جب اللہ ناراض ہو گا تو کہیں تم پر کوئی مصیبت نہ آجائے لیکن دادا کی بات کسی نے نہ سنی اور چمنی کی ماں لپک کر گئی اور جھپک کر باجا اٹھا لائی۔ اب کے دادا کچھ نہ بولے۔ شاید وہ سمجھا سمجھا کر تھک چکے تھے اور انہوں نے کروٹ بدل کر دیوار کی طرف منہ کر لیا۔
چمنی کا باپ فوراً باجا ہاتھ میں لیے بل کے دروازے پر آن کھڑا ہوا جیسے ہی مہمان نظر آئے اس نے باجا بجانا شروع کر دیا۔ آدھی رات کو سکوت ٹوٹ گیا۔ باجے کی تیز آواز فضا میں گونجی تو بی مانوں کو بھی جاگ آگئی۔ اس نے برآمدے سے نکل کر اسٹور میں جھانکا تو اتنے سارے چوہے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ خوشی سے اس کی باچھیں کھل اٹھیں۔ اس نے ایک لمبی چھلانگ لگائی اور چوہوں کے سر پر جا پہنچی۔ تمام چوہے چیختے چلاتے ادھر ادھر بھاگ گئے مگر چمنی کا لالچی باپ بی مانوں کے قابو میں آگیا۔ اس نے بھاگنے کی بہت کوشش کی مگر وہ بی مانو کے پنجوں سے آزاد نہ ہو سکا۔ بی مانوں نے اس کی تکا بوٹی کر دی۔ دراصل وہ بی مانوں کے پنجوں میں نہیں پھنسا تھا بلکہ لالچ جیسی بری بلا کے پنجوں میں پھنس گیا تھا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں